،آج میں تمہارے ہاتھ میں عوام کا ہاتھ دیتا ہوں۔‘ایک قیدی باپ نے اپنی ’پنکی‘ کی سالگرہ پر لکھے خط میں کیا کہا؟

کون جانتا تھا کہ سندھ کے مشہور جاگیردارخاندان سے تعلق رکھنے والے، پاکستان کے معروف سیاسی لیڈر اور سابق وزیر اعظم پاکستان، ذوالفقار علی بھٹو اور نصرت اصفہانی کے گھر 21 جون 1953ء کو کراچی کے پنٹوز نرسنگ ہوم میں پیدا ہونے والی ، بچّی، تاریخ میں ’بے نظیر‘ ٹھہرے گی۔

سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونے والی بچّی کی زندگی کبھی نہ ختم ہونے والی مشکلات، جدّو جہد اور کٹھنائیوں سے عبارت ہوگی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی اور نصرت بھٹو کی پہلی اولاد کا نام ’بے نظیر بھٹو‘ رکھا۔

نام رکھتے وقت شاید اُنہیں خود بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ جس بچّی کو وہ بے نظیرنام دے رہے ہیں، اس کی پھرواقعی کوئی نظیر نہیں ہوگی۔ پاپا کی’ پنکی‘ کا بچپن شہزادیوں جیسا حسین و دل کش تھا۔

پنکی اپنے پاپا کی بے حد لاڈلی، بچپن ہی سےان کی انتہائی تابع دار تھی۔ زوالفقار علی بھٹو نے اپنی خاندانی روایات کے بر عکس بےنظیر کو دنیا کی بہترین درس گاہوں میں حصولِ علم کے لیے تو بھیجا، مگر ساتھ اُس کی تربیت بھی مسلسل جاری رکھی کہ وہ اپنی پنکی کو ہر حوالے سے ’بے نظیر‘ بنانا چاہتے تھے اور بیٹی بھی کیا کمال شخصیت کی مالک تھی کہ جس کے لیے اُس کے باپ کے خوابوں کی تعبیر وتکمیل ہی زندگی کا اوّلین مقصد ٹھہرا۔

پاکستان کی سابقہ وزیراعظم بینظیر بھٹو کی آج 14 ویں برسی منائی جارہی ہے، اس موقع پر بینظیر کی 25 ویں سالگرہ کی یاد تازہ کرتے ہیں جب ذوالفقار علی بھٹو نے جیل سے بیٹی کے نام خط لکھا تھا۔

خط میں سابق وزیر اعظم نے اپنی بیٹی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونے کے باعث تحفے نہ دے سکنے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کا زنداں سے  اپنی پیاری اور بےحد لاڈلی، پنکی کے نام ایک خط

ایک بد نصیب قیدی باپ اپنی پیاری اور ذہین بیٹی کو خط کے ذریعے سال گرہ کی مبارکباد کیسے دے پائے گا،جو اپنے باپ کی زندگی کے لیے جدّوجہد کر رہی ہو اور خود بھی پابندِ سلاسل ہو، جو اپنے اور اپنی ماں کے سانجھے دُکھ کو جانتی ہے،کس طرح محبّت سے لبریز جذبات کا پیغام ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے اور ایک زنجیر سے دوسری زنجیر تک پہنچ سکتا ہے، تمہارے دادا، دادی نے مجھے بہت باوقار انداز سے غریب کی سیاست کرنا سکھائی۔

میری پیاری بیٹی! مَیں تمہیں صرف ایک پیغام دینا چاہتا ہوں کہ یہی تاریخ کا پیغام ہے اپنے عوام پر بھروسا کرو، ان کی بھلائی اور مساوات کے لیےکام کرو۔ اللہ کی جنّت، ماں کے قدموں تلے اور سیاست کی جنّت عوام کے قدموں تلے ہے۔

مَیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے تمہیں کیا تحفہ دے سکتا ہوں، جہاں سے مَیں اپنا ہاتھ بھی باہر نہیں نکال سکتا،  بس،آج میں تمہارے ہاتھ میں عوام کا ہاتھ دیتا ہوں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *