انسانی معاشرے میں صحافت کے کردار اور اہمیت و ضرورت کی جب بات آتی ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اکبر الہ آبادی کا درج ذیل شعر دہرایا جاتا ہے:
کھینچوں نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
حالیہ کساد بازاری کے دور میں جب کہ روحانی، انسانی، علمی، ادبی و اخلاقی قدروں کو ہر طرح سے پامال ہونا پڑ رہا ہے، صحافتی لوازمات بھی بری طرح سے متاثر ہورہے ہیں ـ ویسے اخبار نویس کے لئے ضروری ہے کہ ایک مقصد کے لئے کاغذ داغدار کرےـ اسے ہمیشہ اور ہر حال میں مجبور اور مظلوم کی ترجمانی کے واسطے قلم کا استعمال کرنا چاہئےـ ایک مدیر کا فرض بنتا ہے کہ عوام کو درپیش مسائل یا تکالیف کو ابھارنے اور ارباب اقتدار اس کے لئے اگر کارروائی کرنے میں کاہلی سے کام لیں تو حکومت کے خلاف آواز بلند کرےـ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہماری ریاست میں ایسے بھی صحافی ہیں جنہوں نے صحافت کو کاروبار بنا رکھا ہے.
صحافت ایک مقدس پیشہ ھے، پیشہ ور صحافی کا کام سچ اور جھوٹ کو الگ الگ کر کے اصل حقائق کو لوگوں کے سامنے لانا ہے اور ایسے حقائق کسی ملک اور قوم کے جسم میں ایک تازہ اور طاقتور روح پھونکنے کے اسباب پیدا کرتے ہیں ـ لیکن آج کے دور میں ہمارے ملک میں صحافت باقاعدہ طور پر ایک کاروباری حیثیت اختیار کر چکی ہے ہمارا صحافی اصل حقائق کو پس پردہ ڈال کر طمع نفسانی کی خاطر بلیک میلنگ اور چور بازاری اور غداری پر اتر آیا ہے، اور اگر باد النظر میں دیکھا جائے تو ایسی ہی صحافت کے امین کسی ملک اور قوم کے سب سے بڑے دشمن اور غدار کا کردار ادا کرتے ہیں
.