صحافت کسے کہتے ہیں ۔۔۔؟


صحافت کسے کہتے ہیں ۔۔۔

صحافت عربی زبا ن کا لفظ ھے جو ’صحف‘ سے ماخوذ ہے
جس کے لغوی معنی کتاب یا رسالے کے ہیں۔ یعنی ایسا مطبوعہ مواد، جو مقررہ وقفوں کے بعد شائع ہوتا ھے صحافت کہلاتا ہے۔ اردو اور فارسی میں یہی اصطلاح رائج ھے جبکہ انگریزی میں اسے Journalism کہا جاتا ھے۔ جو ”جرنل“ سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی روزانہ حساب کا بہی کھاتا یا روزنامچہ کے ہیں۔جنرل کو ترتیب دینے والے کے لئےJournalist یا صحافی کی اصطلاح رائج ہے۔ ایسے صحافی جو اس پیشہ کو مکمل طور پر اپناتے ہیں یا اسے ذریعہ روزگار بناتے ہیں انہیں Working Journalist کہا جاتا ہے۔ جو صحافی جزوقتی طور پر کام کرتے ہیں یا کسی ایک اخبار سے وابستہ نہیں رہتے بلکہ مختلف اخبارات میں مضامین، فیچر، کالم لکھتے ہیں وہ آزاد صحافی (Freelance Journalist) کہلاتے ہیں۔
صحافت کی جامع تعریف بیان کرنا مشکل ھے۔ کچھ صحافیوں اور اساتذہ نے صحافت کی تعریف بیان کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ مختلف انسکائیکلوپیڈیا میں بھی صحافت کی تعریف یا مفہوم درج ہے۔
”جدید عربی میں اخبار کے لئے ”جریدہ“ کی اصطلاح مستعمل ہے۔ اس کا مترادف صحیفہ ہے جو بصورت واحد کم استعمال ہوتا ہے لیکن اس کی جمع ”صحف“ کا استعمال جرائد کی بہ نسبت عام ہے۔“اردو انسائیکلوپیڈیا (جلد سوم) میں صحافت کا مفہوم یوں درج ہے:۔”اخبارات و رسائل اور خبر رساں اداروں کے لئے خبروں اور خبروں پر تبصروں وغیرہ کی تیاری کو صحافت کا نام دیا جاتا ہے یوں تو صحافت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ، لیکن جدید دور کی مطبوعہ صحافت کے فن نے پچھلے تین سو سال میں مختلف منزلوں سے گذر کر موجودہ شکل اختیار کی ہے۔“انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کی پانچویں جلد میں جرنلزم کی تعریف ان لفظوں میں بیان کی گئی ہے۔
”The profession of gathering, writing and editing the news. As observers, reporters and commentrators on the rest of the society, journalist enjoy unique status that amply justifies their occassinal designation as the fourth state”
ایکسپلورنگ جرنلزم (Exploring Jounralism) کے مصنفین ای اولزلے اور کیمپ بیل نے صحافت کی تعریف نہایت اختصار کے ساتھ یوں بیان کی ہے۔
”صحافت“ جدید وسائل ابلاغ کے ذریعہ عوامی معلومات، رائے عامہ اور عوامی تفریحات کی باضابطہ اور مستند اشاعت کا فریضہ ادا کرتی ہے۔“
بقول سید اقبال قادری کہ ”صحافت ایک ہنر ہے ایک فن ہے یہ ایک ایسا فن ہے جس میں تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال ہوتا ہے۔“ عموماً لوگ صحافت کو ادب کے دائرے سے باہر ہی رکھتے ہیں لیکن یہ ادب کا ہی ایک حصہ ہے۔ ادب اور صحافت کے درمیان ایک واضح خط ہوتے ہوئے بھی کئی ایک امور میں دونوں مشترک ہیں۔ دونوں کا بنیادی مقصد ابلاغ ہے۔ اس لئے برنارڈشاہ نے صحافت کی مختصراً تعریف یوں بیان کی ہے۔
”All great literature is Journalism”
اعلیٰ ادب دراصل صحافت ہے۔ قرب زمانی اور تازگی صحافت کی جان ہے۔
مہاتھیو آرنالڈ نے صحافت سے متعلق اس طرح رائے دی ہے۔
”journalism is Literature but in a Hurry”
اعلیٰ ادب ہی صحافت ہے اور یہ عجلت میں لکھا گیا ادب ہے۔ صحافت کے ابتدائی دور میں ادب اور صحافت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم تھے۔ ادبی شہ پاروں کے ذریعہ صحافت کا کام لیا جاتا تھا۔ جدوجہد آزادی کے دوران لکھا گیا ادب، صحافت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے اسی لئے لارڈکینیگ نے اس دور کی صحافت پر یوں رائے دی ہے۔
”اس بات کو لوگ نہ تو جانتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں کہ گذشتہ چند ہفتوں میں دیسی اخباروں نے خبریں شائع کرنے کی آڑ میں ہندوستانی باشندوں کے دلوں میں دلیرانہ حد تک بغاوت کے جذبات پیدا کردیئے ہیں۔ یہ کام بڑی مستعدی، چالاکی اور عیاری کے ساتھ انجام دیا گیا۔“
سرسید احمد خان کو اردو صحافت کا امام کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے اخباروں کے ذریعہ صحافت اور ادب دونوں کی خدمت کی۔ سرسید کے نزدیک صحافت ایک خدمت ہے اور ادب سماج کی اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ انہوں نے نہ صرف سوچ و فکر میں تبدیلی پیدا کی بلکہ سماجی طور پر ایک بہت بڑا انقلاب برپا کیا۔ اخبار سائنٹفک سوسائٹی اور تہذیب الاخلاق کو صرف اور صرف قوم کی اصلاح اور خدمت کے لئے استعمال کیا۔ انہوں نے صحافت سے متعلق اپنا نقطہ نظر یوں وضح کیا ہے:
”سات برس تک ہم نے بذریعہ اس پرچے کے اپنی قوم کی خدمت کی۔ مذہبی بے جا جوش سے جس تاریک گڑھے میں وہ چلی جاتی تھی اس سے خبردار کیا۔ دنیاوی باتوں میں جن تاریک خیالات کے اندھیرے میں وہ مبتلا تھی اس کو روشنی دکھائی۔۔۔ قومی ہمدردی، قومی عزت، سیلف آنر یعنی عزت کا خیال اگر ہم نے اپنی قوم میں پیدا نہیں کیا تو ان لفظوں کو ضرور اور زبان کیعلم وادب میں داخل کیا۔ ہم نے کچھ کیا ہو نہ کیا ہو مگر ہر طرف سے تہذیب و شائستگی کا غلغلہ سنا۔ قومی ہمدردی کی صداؤں کا ہمارے کانوں میں آنا، اردو زبان و ادب کے علم و ادب کا ترقی پانا، یہی ہماری مرادیں تھیں جن کو ہم نے بھرپایا۔“
مولانا ظفر علی خان نے بھی صحافت کو ملت و قوم کی خدمت کے لئے منتخب کیا۔ اخبار ”زمیندار“ کی شہرت کا یہ حال تھا کہ سرحد پر لوگ ایک آنہ دے کر خریدتے تھے اور ایک آنہ دے کر پڑھواتے تھے۔ جب کہ مولانا محمد علی جوہر نے کافی غوروخوض کے بعد صحافت کو ملک و قوم کی خدمت کا ذریعہ بنایا۔ وہ صحافت سے متعلق اپنے نظریہ کی یوں وضاحت کرتے ہیں:
”صحافت سے میری غرض صحافت نہیں ہے۔ ملک و ملت کی خدمت ہے اور اگر ایک مختصر مضمون سے صحیح طور پر ملک و ملت کی رہنمائی ہوسکتی ہے تو میں وہ بھی لکھ سکتا ہوں اور لکھوں گا۔ اگر انیس نہیں اڑتیس کالموں کے مضمون سے صحیح رہنمائی ہوسکتی ہے تو میں اتنا طویل مضمون لکھ سکتا ہوں اور ضرور بالضرور لکھوں گا۔ غرض ملک و ملت کی خدمت ہے جس طرح بہترین طریقے پر ملک و ملت کی خدمت ہوسکے گی انشاء اللہ کی جائے گی۔“
مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی صحافت کو ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر رکھا تھا۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *