پاکستان میں اس وقت ایسی بھی ادویات ساز کمپنیاں موجود ہیں

پاکستان میں اس وقت مختلف کمپنیوں کی قریب 37 ہزار ادویات رجسٹرڈ ہیں

جن میں سے اکثر ادویات کا وہ معیار اور کوالٹی نہیں ہوتی کہ جس سے مریض کو مکمل آرام حاصل ہو ، ایک دوائی کے استعمال کے بعد آرام نہ آنے پر دوسری دوائی اور اس کی مقدار میں بھی آضافہ کردیا جاتا ہے لیکن بجائے مریض کی طبعیت بہتر ہونے کے مزید بگڑ جاتی ہے۔

مریض کی طبعیت مزید بگڑنے کے پیچھے ایک عمل جعلی اور دو نمبر ادویات کا بھی ہے۔ ہمارے ہاں مریضوں کو زیادہ تر اینٹی بائیو ٹیک ادویات سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جن مریضوں کا آپریشن کیا جاتا ہے اگر ان استعمال کروائی جانے والی اینٹی بائیو ٹیک دوائی جعلی ہوگی تو اس سے مریض کے جسم میں انفیکشن پھیل جانے کا خطرہ ہوتا ہے، جس سے اس کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔

دنیا کے چند ایک ممالک ہیں جہاں ادویات معیاری ملتی ہیں لیکن اکثر ممالک میں جعلی ادویات کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں جعلی اور غیر معیاری ادویات کے کاروبار کا سالانہ حجم دو سو ارب ڈالر کے قریب ہے۔ کئی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں جتنے بھی کاروباری شعبوں میں قانونی اور معیاری مصنوعات کی غیر قانونی اور غیر معیاری نقل تیار کر کے       جتنا بھی منافع کمایا جاتا ہے، ان میں جعلی ادویات سے ہونے والا منافع سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ اگر یہ منافع تمام دونمبر کاموں سے زیادہ ہے تو جعلی ادویات کے کاروبار نے منافع میں منشیات کے کاروبار کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ ان لالچی اور حواص کے غلاموں کی وجہ سے سالانہ لاکھوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں پہلے تو ادویات کی کمی ہوتی ہے اگر قسمت سے کو دوائی موجود ہے تو اس کا معیار انتہائی کم درجے پر ہوگا، پنجاب کے ہسپتالوں میں گزشتہ حکومت نے اچھی کمپنیوں کی ادویات کی فراہمی شروع کی تھی ہیلتھ کیر کمیشن بھی بنایا لیکن عدالت نے اس کمیشن کی کارکردگی پر سوال اٹھا لیے ہیں گزشتہ روز چیف جسٹس ثاقب نثار نے کمیشن کوتحلیل کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کیا اور نئے بورڈ کے قیام کا حکم دیا۔

پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں اس وقت جو اچھی کمپنیوں کی ادویات موجود ہیں بازار سے اسی کمپنی کی اسی دوائی کے معیار کا موازنہ کروا کر دیکھ لیں دونوں کے نتیجے میں فرق ہوگا۔ کچھ عرصہ قبل ایک ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کے اعلیٰ حکام نے صوبہ پنجاب کے چیف ڈرگ کنٹرولر کو لکھا کہ 50 کے قریب دوا ساز اداروں کی بنائی ہوئی 91 اینٹی بائیوٹک ادویات غیر معیاری نکلی ہیں۔

پاکستان میں اس وقت ایسی بھی ادویات ساز کمپنیاں موجود ہیں جو دو کمروں پر مشتمل ہیں، جعلی ادویات کے حوالے سے پاکستان میں جو اقدامات اٹھائے جارہے ہیں وہ درست ہیں لیکن مزید سخت اقدامات کی ضرورت ہے، اور پوری دنیا میں اس دو سو ارب ڈالر کے دھندے کو لگام ڈالنے کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اقدامات اٹھائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *